EN हिंदी
ایک کرن بس روشنیوں میں شریک نہیں ہوتی | شیح شیری
ek kiran bas raushniyon mein sharik nahin hoti

غزل

ایک کرن بس روشنیوں میں شریک نہیں ہوتی

زیب غوری

;

ایک کرن بس روشنیوں میں شریک نہیں ہوتی
دل کے بجھنے سے دنیا تاریک نہیں ہوتی

جیسے اپنے ہاتھ اٹھا کر گھٹا کو چھو لوں گا
لگتا ہے یہ زلف مگر نزدیک نہیں ہوتی

تیرا بدن تلوار سہی کس کو ہے جان عزیز
اب ایسی بھی دھار اس کی باریک نہیں ہوتی

شعر تو مجھ سے تیری آنکھیں کہلا لیتی ہیں
چپ رہتا ہوں میں جب تک تحریک نہیں ہوتی

دل کو سنبھالے ہنستا بولتا رہتا ہوں لیکن
سچ پوچھو تو زیبؔ طبیعت ٹھیک نہیں ہوتی