ایک جلوہ ایک نغمہ ایک پیمانہ ابھی
زندگی کا ہم نشیں مت چھیڑ افسانہ ابھی
لذت صہبا سے ہوں ساقیٔ بیگانہ ابھی
ہو رہا ہے بند کیوں ہستی کا مے خانہ ابھی
حیرت جلوہ مری آنکھوں کا پردہ بن گئی
ہوں سر منزل مگر منزل سے بیگانہ ابھی
دیکھ تو پی کر ذرا سی آج صہبائے خودی
دیکھ بنتا ہے جہاں اک آئنہ خانہ ابھی
کھل گیا گر میکشوں پر درد صہبا کا بھرم
گونج اٹھے گا نوائے غم سے مے خانہ ابھی
سن رہے ہیں قصۂ آدم ازل سے ہم مگر
ہے وہی کیفیت آغاز افسانہ ابھی
کاسۂ دل کو مجلہ اور کر لوں تو چلوں
درخور حسن ازل کب ہے یہ نذرانہ ابھی
گیسوئے کونین تو منت کش شانہ نہیں
ہاں مگر الجھا ہوا ہے ذہن فرزانہ ابھی
جس قدر پیتا گیا میں تشنگی بڑھتی گئی
بس یہی تھی آرزو اور ایک پیمانہ ابھی
صدق دل سے ساقیٔ فطرت کو اک آواز دے
دیکھ آتا ہے ترے ہاتھوں میں پیمانہ ابھی
فرصت نظارہ کب حاصل ہوئی فرحتؔ مجھے
ہوں اسیر کارگاہ حسن جانانہ ابھی

غزل
ایک جلوہ ایک نغمہ ایک پیمانہ ابھی
پریم شنکر گوئلہ فرحت