ایک جلوہ بصد انداز نظر دیکھ لیا
تجھ کو ہی دیکھا کئے تجھ کو اگر دیکھ لیا
جیسے سر پھوڑ کے مل جائے گی زنداں سے نجات
کیا جنوں نے کوئی دیوار میں در دیکھ لیا
باز ہے آج تلک دیدۂ حیراں کی طرح
دشت وحشت نے کسے خاک بسر دیکھ لیا
جرم نظارہ کی پاتا ہے سزا دل اب تک
اہل دل دیکھ لیا اہل نظر دیکھ لیا
صورت نقش قدم دیدۂ مشتاق ہیں ہم
جب بھی وہ آیا سر راہ گزر دیکھ لیا
یہی حسرت ہے کہ وہ ایک نظر دیکھ تو لے
اور اس نے کبھی اس سمت اگر دیکھ لیا
کہیں پردہ ہے تجلی کہیں جلوہ ہے حجاب
یہ تماشا بھی ترا ذوق نظر دیکھ لیا
روز اک تازہ غم دہر ہے نازل تابشؔ
ایک طوفان بلا نے مرا گھر دیکھ لیا
غزل
ایک جلوہ بصد انداز نظر دیکھ لیا
تابش دہلوی