ایک جگ بیت گیا جھوم کے آئے بادل
وہ سمندر ہی کہاں ہے جو اٹھائے بادل
نہ کبھی ٹوٹ کے برسے نہ یہ مایوس کرے
دور ہی دور سے آنکھوں لبھائے بادل
رات آئی کہ کہیں آپ نے کھولے گیسو
دوش پر شوخ ہواؤں کے جو آئے بادل
یہ زمیں چیختی رہتی ہے کہ پانی پانی
کوئی طوفاں کوئی سیلاب ہی لائے بادل
میرے سر پر تو سدا دھوپ کے نیزے چمکے
وہ مسافر میں کہاں ہوں کہ جو پائے بادل
کھو گئے جانے کہاں تند ہواؤں کے بغیر
ایک مدت سے ہے سورج کو چھپائے بادل
میگھ ملہار کی لے آگ اگاتی ہے شمیمؔ
پچھلی برسات کی پھر یاد دلائے بادل
غزل
ایک جگ بیت گیا جھوم کے آئے بادل
سید احمد شمیم