ایک جا حرف وفا لکھا تھا سو بھی مٹ گیا
ظاہراً کاغذ ترے خط کا غلط بردار ہے
جی جلے ذوق فنا کی ناتمامی پر نہ کیوں
ہم نہیں جلتے نفس ہر چند آتش بار ہے
آگ سے پانی میں بجھتے وقت اٹھتی ہے صدا
ہر کوئی درماندگی میں نالہ سے ناچار ہے
ہے وہی بد مستی ہر ذرہ کا خود عذر خواہ
جس کے جلوے سے زمیں تا آسماں سرشار ہے
مجھ سے مت کہہ تو ہمیں کہتا تھا اپنی زندگی
زندگی سے بھی مرا جی ان دنوں بے زار ہے
آنکھ کی تصویر سر نامے پہ کھینچی ہے کہ تا
تجھ پہ کھل جاوے کہ اس کو حسرت دیدار ہے
غزل
ایک جا حرف وفا لکھا تھا سو بھی مٹ گیا (ردیف .. ے)
مرزا غالب