ایک اک سے یہی کہتا ہوں بتا میں کیا ہوں
ایک مدت ہوئی میں بھول گیا میں کیا ہوں
نقش بر آب سہی آپ بنا آپ مٹا
اب تلک ہلتی ہے زنجیر صدا میں کیا ہوں
اپنی پہنائی میں گم کردہ نشاں ہوں میں بھی
تو اگر ہے اسی دنیا کا خدا میں کیا ہوں
ایک تاریخ ولادت ہے مری ایک وفات
ان حقائق کے سوا اور بتا میں کیا ہوں
اب کہاں ڈھونڈھنے جاؤ گے مجھے اے لوگو
ہو چکا خاک گئی لے کے ہوا میں کیا ہوں

غزل
ایک اک سے یہی کہتا ہوں بتا میں کیا ہوں
صہبا وحید