EN हिंदी
ایک اک قطرہ جوڑ کر رکھا | شیح شیری
ek ek qatra joD kar rakkha

غزل

ایک اک قطرہ جوڑ کر رکھا

سون روپا وشال

;

ایک اک قطرہ جوڑ کر رکھا
خون سارا نچوڑ کر رکھا

رنگ تو اور بھی تھے جیون میں
کیوں اداسی کو اوڑھ کر رکھا

کیونکہ آئینہ سچ بتا دے گا
اس لیے اس کو توڑ کر رکھا

جو بھی لمحے تمہارے ساتھ کٹے
میں نے ان سب کو جوڑ کر رکھا

وہ ورق جس میں تیرا نام آیا
میں نے ان سب کو موڑ کر رکھا

خود پہ جب بھی کیا یقیں میں نے
رخ ہواؤں کا موڑ کر رکھا