ایک اک موج کو سونے کی قبا دیتی ہے
شام سورج کو سمندر میں چھپا دیتی ہے
ایک چہرا مجھے روزانہ سکوں دیتا ہے
ایک تصویر مجھے روز رلا دیتی ہے
عیب شہرت میں نہیں اس کا نشہ قاتل ہے
یہ ہوا کتنے چراغوں کو بجھا دیتی ہے
لوگ آتے ہیں ٹھہرتے ہیں گزر جاتے ہیں
یہ زمیں خود ہی گزر گاہ بنا دیتی ہے
کسی چہرے میں نظر آتا ہے کوئی چہرا
کوئی صورت کسی صورت کا پتا دیتی ہے
نیل میں راستہ بننا تو ہے دشوار مگر
میری غیرت مرے ہاتھوں میں عصا دیتی ہے
غزل
ایک اک موج کو سونے کی قبا دیتی ہے
شاہد لطیف