ایک اک کر کے سبھی لوگ بچھڑ جاتے ہیں
دل کے جنگل یوں ہی بستے ہیں اجڑ جاتے ہیں
کیسے خوش رنگ ہوں خوش ذائقہ پھل ہوں لیکن
وقت پر چکھے نہیں جائیں تو سڑ جاتے ہیں
اپنے لفظوں کے تأثر کا ذرا دھیان رہے
حاکم شہر کبھی لوگ بھی اڑ جاتے ہیں
ریت تاریخ کے سینے میں ہٹاتے ہیں وہی
آبلے پیاسی زبانوں میں جو پڑ جاتے ہیں
ایسے کچھ ہاتھ بھی ہوتے ہیں کہ جن کے کنگن
توڑنے والے کے احساس میں گڑ جاتے ہیں
شبنمؔ انداز تکلم میں کشش لازم ہے
ورنہ الفاظ سمٹتے ہیں سکڑ جاتے ہیں

غزل
ایک اک کر کے سبھی لوگ بچھڑ جاتے ہیں
رفیعہ شبنم عابدی