EN हिंदी
ایک ہی گھر میں رکھ دئے کس نے جدا جدا چراغ | شیح شیری
ek hi ghar mein rakh diye kis ne juda juda charagh

غزل

ایک ہی گھر میں رکھ دئے کس نے جدا جدا چراغ

ضیا فاروقی

;

ایک ہی گھر میں رکھ دئے کس نے جدا جدا چراغ
تیرے لئے جلا چراغ میرے لئے بجھا چراغ

عشق و طلب کی راہ میں باد ہوس بھی تیز تھی
میں نے جلایا رات بھر کر کے خدا خدا چراغ

صبح ہوئی تو آفتاب ساری بساط الٹ گیا
رات اسی مقام پر رونق بزم تھا چراغ

وقت سحر جو پوچھ لے کوئی تو کیا بتاؤں گا
طاق جنوں پہ رات بھر کس کے لئے جلا چراغ

کون تھا میرے روبرو عالم‌‌ وجد و حال میں
کس کی نگاہ لطف سے بن گیا آئنہ چراغ

وادئ جاں میں دفعتاً کیسی یہ روشنی ہوئی
کس کی نظر نے کر دئے منظر شب میں وا چراغ

کوئی خبر نہ لا سکی جس کی ہوائے تند بھی
رکھتے ہیں اس مقام کا سارا اتا پتا چراغ

تختئ شب پہ لکھ دیا وقت نے یہ بھی واقعہ
زرد ہوا کے سامنے سینہ سپر رہا چراغ

مجھ کو ضیاؔ وہ چاہیے گھر جو مرا اجال دے
میرا نہ مسئلہ قمر میرا نہ مدعا چراغ