ایک ہے پھر بھی ہے خدا سب کا
اس کا اس کا مرا ترا سب کا
حسن مستور کو عیاں کر دے
ایک ہو جائے مدعا سب کا
جرم دل کی سزا ملی مجھ کو
میں نے پایا لیا دیا سب کا
نزع میں دے گئے جواب حواس
اعتبار آج اٹھ گیا سب کا
ایک بیگانہ خو کو دل دے کر
میں گناہ گار ہو گیا سب کا
میں کسی کا نہیں سوا جس کے
ہائے وہ ہے مرے سوا سب کا
ایسی کیا ہو گئی خطا مجھ سے
مجھ پہ ہے جور ناروا سب کا
سب کو چھوڑا ہے میں نے جس کے لئے
وہ ستم گر ہے آشنا سب کا
ایک منزل ہے اے نسیمؔ مگر
جادۂ شوق ہے جدا سب کا
غزل
ایک ہے پھر بھی ہے خدا سب کا
نسیم نور محلی