ایک ایک قطرہ اس کا شعلہ فشاں سا ہے
موج صبا پہ ریگ رواں کا گماں سا ہے
شاید یہی ہے حاصل عمر گریز پا
پھیلا ہوا دماغ میں ہر سو دھواں سا ہے
پھانکی ہے جب سے میں نے ترے روپ کی دھنک
احساس رنگ و نور کا سیل رواں سا ہے
ننھا سا تار افق پہ جو اب تک ہے ضو فشاں
تاریکیٔ حیات پہ بار گراں سا ہے
شب بھر جہاں پگھلتی رہی چاند سی ضمیرؔ
اس شاخ پہ بہ شکل دل اب تک نشاں سا ہے
غزل
ایک ایک قطرہ اس کا شعلہ فشاں سا ہے
تخت سنگھ