EN हिंदी
ایک دنیا کی کشش ہے جو ادھر کھینچتی ہے | شیح شیری
ek duniya ki kashish hai jo idhar khinchti hai

غزل

ایک دنیا کی کشش ہے جو ادھر کھینچتی ہے

عرفان ستار

;

ایک دنیا کی کشش ہے جو ادھر کھینچتی ہے
اک طبیعت ہے کہ آزار ہنر کھینچتی ہے

ایک جانب لیے جاتی ہے قناعت مجھ کو
ایک جانب ہوس لقمۂ تر کھینچتی ہے

ہجر کا عیش کہاں ہے مری قسمت میں کہ اب
زندگی رنج بہ انداز دگر کھینچتی ہے

ایک منزل ہے جو امکان سے باہر ہے کہیں
اک مسافت ہے کہ بس گرد سفر کھینچتی ہے

اک طرف دل کا یہ اصرار کہ خلوت خلوت
اک طرف خواہش تسکین نظر کھینچتی ہے