EN हिंदी
ایک دنیا بنا گئی مٹی | شیح شیری
ek duniya bana gai miTTi

غزل

ایک دنیا بنا گئی مٹی

لئیق عاجز

;

ایک دنیا بنا گئی مٹی
جس گھڑی روح پا گئی مٹی

جس نے سوچا کہ روند دیں اس کو
آخر اک دن چبا گئی مٹی

میں نے جتنے بھی بیج بوئے تھے
بانجھ عورت تھی کھا گئی مٹی

تشنگی تھی کنویں کی قیمت میں
بدلی چھائی گرا گئی مٹی

سرخ رو ہے وہ ساری دنیا میں
ساتھ جس کا نبھا گئی مٹی

سب قبالے اٹھا کے لے آئی
کسی کی ہے یہ بتا گئی مٹی

کس نے کب کس کو کیسے قتل کیا
شکل سب کی چھپا گئی مٹی