EN हिंदी
ایک دو اشک بہاتی ہے چلی جاتی ہے | شیح شیری
ek do ashk bahati hai chali jati hai

غزل

ایک دو اشک بہاتی ہے چلی جاتی ہے

عروج زہرا زیدی

;

ایک دو اشک بہاتی ہے چلی جاتی ہے
اب تری یاد بھی آتی ہے چلی جاتی ہے

وہ مری دوست جسے بعد مرے چاہا تھا
مجھ سے نظروں کو چراتی ہے چلی جاتی ہے

کبھی دہشت نے بگاڑے تھے پر اب تنہائی
خود مرے بال بناتی ہے چلی جاتی ہے

ثبت کر کے مرے ماتھے پہ مری ہو کی مہر
چاندنی درد بڑھاتی ہے چلی جاتی ہے

یہ محبت بھی عجب چیز ہے زہرا زیدیؔ
چند لمحوں کو سجاتی ہے چلی جاتی ہے