ایک دن خواب نگر جانا ہے
اور یونہی خاک بسر جانا ہے
عمر بھر کی یہ جو ہے بے خوابی
یہ اسی خواب کا ہرجانا ہے
گھر سے کس وقت چلے تھے ہم لوگ
خیر اب کون سا گھر جانا ہے
موت کی پہلی علامت صاحب
یہی احساس کا مر جانا ہے
کسی تقریب جدائی کے بغیر
ٹھیک ہے جاؤ اگر جانا ہے
شور کی دھول میں گم گلیوں سے
دل کو چپ چاپ گزر جانا ہے
غزل
ایک دن خواب نگر جانا ہے
ادریس بابر