ایک دیوار سی کہرے کی کھڑی ہے ہر سو
پر سمیٹے ہوئے بیٹھی ہے چمن میں خوشبو
یہ اندھیرے بھی ہمارے لیے آئینہ ہیں
روبرو کرتے ہیں کردار کے کتنے پہلو
ان سلگتے ہوئے لمحوں سے یہ ملتا ہے سراغ
دم بہ دم ٹوٹ رہا ہے شب غم کا جادو
دام بردار کوئی دشت وفا سے گزرا
صورت خواب ہوا حسن خرام آہو
پھر ہوا حبس کا احساس گراں بار سہیلؔ
پھر مرا دل ہے طلب گار ہوائے گیسو

غزل
ایک دیوار سی کہرے کی کھڑی ہے ہر سو
ادیب سہیل