ایک دھندلا سا ستارا بھی بہت ہوتا ہے
شب غم میں یہ سہارا بھی بہت ہوتا ہے
گردش وقت پہ کیا ہے مری بربادی میں
ہاتھ در پردہ تمہارا بھی بہت ہوتا ہے
بے قراران محبت کی تسلی کے لیے
ان کا ادنیٰ سا اشارہ بھی بہت ہوتا ہے
کیوں میں طوفان و تلاطم کی پناہیں ڈھونڈوں
ڈوبنے کو تو کنارا بھی بہت ہوتا ہے
ڈوبنے والے کو دریائے محبت میں نسیمؔ
ایک تنکے کا سہارا بھی بہت ہوتا ہے
غزل
ایک دھندلا سا ستارا بھی بہت ہوتا ہے
نسیم شاہجہانپوری