EN हिंदी
ایک دھندلا سا ستارا بھی بہت ہوتا ہے | شیح شیری
ek dhundla sa sitara bhi bahut hota hai

غزل

ایک دھندلا سا ستارا بھی بہت ہوتا ہے

نسیم شاہجہانپوری

;

ایک دھندلا سا ستارا بھی بہت ہوتا ہے
شب غم میں یہ سہارا بھی بہت ہوتا ہے

گردش وقت پہ کیا ہے مری بربادی میں
ہاتھ در پردہ تمہارا بھی بہت ہوتا ہے

بے قراران محبت کی تسلی کے لیے
ان کا ادنیٰ سا اشارہ بھی بہت ہوتا ہے

کیوں میں طوفان و تلاطم کی پناہیں ڈھونڈوں
ڈوبنے کو تو کنارا بھی بہت ہوتا ہے

ڈوبنے والے کو دریائے محبت میں نسیمؔ
ایک تنکے کا سہارا بھی بہت ہوتا ہے