ایک دھوکہ ہے دل کشی کیا ہے
ہم سمجھتے ہیں دوستی کیا ہے
آنسوؤں کی ہو اور عمر دراز
چاند تاروں کی روشنی کیا ہے
حسن کی اک نگاہ جاں پرور
عشق کی اور زندگی کیا ہے
ہم نے دیکھا ہے بھیگی پلکوں کو
آپ کیا جانیں تشنگی کیا ہے
روٹھنا اک ادا تو ہے لیکن
یہ ہمیشہ کی برہمی کیا ہے
دل کو نسبت ہے ان کے دل سے رئیسؔ
جذب الفت میں اب کمی کیا ہے

غزل
ایک دھوکہ ہے دل کشی کیا ہے
رئیس اختر