ایک چراغ یہاں میرا ہے ایک دیا وہاں تیرا
بیچ میں اقلیمیں پڑتی ہیں پانی اور اندھیرا
کوئی نہ جانے کون سا لفظ ہے جس سے جی اٹھوں گا
جس طائر میں جان ہے میری اس کا دور بسیرا
ساحل پر تو ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا ہے
شاید کسی جہاز میں بھر کر لائے کوئی سویرا
بھرا ہوا ہے جانوروں اور سانپوں سے یہ جنگل
ہجر دکھائی دیتا تھا باہر سے سبز گھنیرا
دھوپ اور بارش بھیجنے والے میری بھی سن لینا
تیرے باغ کے گوشے میں اک کچا پھول ہے میرا
غزل
ایک چراغ یہاں میرا ہے ایک دیا وہاں تیرا
محمد اظہار الحق