ایک بے نام سی دیوار ہے باہر میرے
کون جانے جو نیا شہر ہے اندر میرے
فن کے پیمانے سبک حرف کے کوزے نازک
کیسے سمجھاؤں کہ کچھ دکھ ہیں سمندر میرے
کوئی موسم ہو مری چھپ مرا رنگ اپنا ہے
میری یہ وضع کہ بے وضع ہیں منظر میرے
میرے ہی رخ کا عرق جوہر گل ہائے ہنر
زرگری کام مرا زخم مقدر میرے
کیسے میں پاؤں کی گردش کو غلط ٹھہراؤں
کہ ہے گردش ہی کا احسان لہو پر میرے
اب کے بھی چشم نمو جاگی تو کیا فرق پڑا
وہی صورت کہ ثمر اوروں کے پتھر میرے
تجربہ کر لے مرے شہر کی سرحد پہ غنیم
لوح میدان مرا حرف ہیں لشکر میرے
آنے والوں سے کہو یوں نہ کریں شور بلند
کئی گھر اور بھی ہیں گھر کے برابر میرے
بول ہیں رس نہ سہی لمحے میں نرمی نہ سہی
کچھ تو ہے بات جو شہرے ہیں یہ محشرؔ میرے
غزل
ایک بے نام سی دیوار ہے باہر میرے
محشر بدایونی