ایک عرض مدعا ہونے سے پہلے
سوچ لینا تھا خدا ہونے سے پہلے
خواہشیں کتنی ادھوری رہ گئی ہیں
جسم و جاں میں فاصلہ ہونے سے پہلے
آخری تحریر ہے آب رواں پر
آخری بوسہ قضا ہونے سے پہلے
اس قدر میٹھا نہ ہونا چاہئے تھا
ان لبوں کو ذائقہ ہونے سے پہلے
اس کی آنکھوں کے پیالے ناچتے ہیں
کھو گئے کتنے نشہ ہونے سے پہلے
کون جانے ڈوبنا ہے یا ابھرنا
پانیوں میں راستہ ہونے سے پہلے
خود کشی کر لی چمکتے چاند نے بھی
آخر شب آئنا ہونے سے پہلے
شہر سے شاداں گزر جانا ہے بہتر
مشتعل آب و ہوا ہونے سے پہلے
وہ مکین دل ہوا خورشید اکبرؔ
گھر کا دروازہ کھلا ہونے سے پہلے
غزل
ایک عرض مدعا ہونے سے پہلے
خورشید اکبر