EN हिंदी
ایک عجب سی دنیا دیکھا کرتا تھا | شیح شیری
ek ajab si duniya dekha karta tha

غزل

ایک عجب سی دنیا دیکھا کرتا تھا

عالم خورشید

;

ایک عجب سی دنیا دیکھا کرتا تھا
دن میں بھی میں سپنا دیکھا کرتا تھا

ایک خیال آباد تھا میرے دل میں بھی
خود کو میں شہزادہ دیکھا کرتا تھا

سبز پری کا اڑن کھٹولا ہر لمحے
اپنی جانب آتا دیکھا کرتا تھا

اڑ جاتا تھا روپ بدل کر چڑیوں کے
جنگل صحرا دریا دیکھا کرتا تھا

ہیرے جیسا لگتا تھا اک اک پتھر
ہر مٹی میں سونا دیکھا کرتا تھا

کوئی نہیں تھا تشنہ ریگستانوں میں
ہر صحرا میں دریا دیکھا کرتا تھا

ہر جانب ہریالی تھی خوشحالی تھی
ہر چہرے کو ہنستا دیکھا کرتا تھا

بچپن کے دن کتنے اچھے ہوتے ہیں
سب کچھ ہی میں اچھا دیکھا کرتا تھا

آنکھ کھلی تو سارے منظر غائب ہیں
بند آنکھوں سے کیا کیا دیکھا کرتا تھا