EN हिंदी
ایک ایسے مکاں میں ٹھہرے ہیں | شیح شیری
ek aise makan mein Thahre hain

غزل

ایک ایسے مکاں میں ٹھہرے ہیں

رفعت شمیم

;

ایک ایسے مکاں میں ٹھہرے ہیں
جس کے باہر انا کے پہرے ہیں

شام پنچھی کہاں گزاریں گے
شاخ گل پر جلے بسیرے ہیں

ہم تو ملبہ ہیں نا شناسی کا
ٹوٹے پھوٹے سے چند چہرے ہیں

آج بانٹی ہے دھوپ سورج نے
اپنے دامن میں کیوں اندھیرے ہیں

جال ٹوٹے ملے ہیں ساحل پر
کون جانے کہاں مچھیرے ہیں