ایک عالم نے جبہ سائی کی
اے بتو تم نے بھی خدائی کی
عاشقوں کے لہو کی پیاسی ہیں
مچھلیاں اس کف حنائی کی
زلف پر پیچ سے جو دل الجھا
بیچ میں رخ پڑا صفائی کی
مرغ بے بال و پر ہوں اے صیاد
آرزو ہے کسی رہائی کی
اے جنوں دشت کو چلیں گے ہم
ہے قسم اس برہنہ پائی کی
سر جدا ہم نے اپنا کر ڈالا
آئی جب گفتگو جدائی کی
پھر گیا یار گھر کے پاس آ کر
بخت برگشتہ نے برائی کی
سیکڑوں جامے تجھ پہ پھٹتے ہیں
دھوم ہے تیری میرزائی کی
تجھ سے تو ہم کو اے خم ابرو
تھی نہ امید کج ادائی کی
کوئی قاتل کی راہ بھولا تھا
اے اجل تو نے رہنمائی کی
دل کہیں اور ہم نے اٹکایا
بے وفاؤں سے بے وفائی کی
نہ گئی زاہدوں کے پاس کبھی
دختر رز نے پارسائی کی
شہر میں جائے گی مری پاپوش
قدر واں کیا برہنہ پائی کی
صاف ہے آئنہ تن پر نور
ہے دلیل اس پہ خود نمائی کی
کاسۂ ماہ کیوں نہ ہو پر نور
برسوں اس کوچے کی گدائی کی
کعبۂ دل میں بھی مقام کیا
اے بتو تم نے کیا رسائی کی
خط کے آنے پہ بھی مکدر ہے
صورت اب کون سی صفائی کی
بال و پر بھی گئے بہار کے ساتھ
اب تو صورت نہیں رہائی کی
کس کے کوچے کی راہ بھولا ہوں
خضر نے بھی نہ رہنمائی کی
شاہ کہلائے ہر طرح سے وزیرؔ
بادشاہی نہ کی گدائی کی
غزل
ایک عالم نے جبہ سائی کی
خواجہ محمد وزیر لکھنوی