EN हिंदी
ایک عالم ہے یہ حیرانی کا جینا کیسا | شیح شیری
ek aalam hai ye hairani ka jina kaisa

غزل

ایک عالم ہے یہ حیرانی کا جینا کیسا

بلقیس ظفیر الحسن

;

ایک عالم ہے یہ حیرانی کا جینا کیسا
کچھ نہیں ہونے کو ہے اپنا یہ ہونا کیسا

خون جمتا سا رگ و پے میں ہوئے شل احساس
دیکھے جاتی ہے نظر ہول تماشا کیسا

ریگزاروں میں سرابوں کے سوا کیا ملتا
یہ تو معلوم تھا ہے اب یہ اچنبھا کیسا

آبلے پاؤں کے سب پھوٹ بہے بے نشتر
راس آیا ہمیں ان خاروں پہ چلنا کیسا

پھر کبھی سوچیں گے سچ کیا ہے ابھی تو سن لیں
لوگ کس کس کے لیے کہتے ہیں کیسا کیسا

سوئی آنکھوں کی بھی میں نے ہی نکالی تھی مگر
دیکھ کے بھی مجھے اس نے نہیں دیکھا کیسا

کتنی سادہ تھی ہتھیلی مری رنگین ہوئی
میری انگلی میں اتر آیا ہے کانٹا کیسا

آئینہ دیکھیے بلقیسؔ یہی ہیں کیا آپ
آپ نے اپنا بنا رکھا ہے حلیہ کیسا