اہتمام رنگ و بو سے گلستاں پیدا کریں
آؤ مل جل کر بہار بے خزاں پیدا کریں
کیوں سکوت بے محل سے داستاں پیدا کریں
دیدہ و دانستہ اپنے راز داں پیدا کریں
راس آ سکتا ہے میر کارواں بننے کا خواب
شرط یہ ہے پہلے اپنا کارواں پیدا کریں
کار آرائی تو خود ہے حاصل تکمیل کار
دل میں کیا اندیشۂ سود و زیاں پیدا کریں
اپنا اعجاز تصور دیکھنے کی چیز ہے
ہم جو چاہیں تو مکاں میں لا مکاں پیدا کریں
وقت کو ضد ہی بدل دو رسم عرض مدعا
دل یہ کہتا ہے کہ ہنگامہ کہاں پیدا کریں
آپ کی مرضی کا ہے پابند رنگ گلستاں
آپ چاہیں تو بہار جاوداں پیدا کریں
روح پر حاوی نہ ہو جائے فضائے سوگوار
ہم غم دل سے نشاط جاوداں پیدا کریں
کوشش تعمیر کی تخریب سامانی نہ پوچھ
آشیاں بردار شاخیں بجلیاں پیدا کریں
ہاں سکھا دیں رنگ رخ کو آئنہ داری کا فن
بہر عرض مدعا ہم ترجماں پیدا کریں
پھر بلاتا توں کے یہ تیور کہاں باقی عروجؔ
حال دل کہہ کر جواب درمیاں پیدا کریں
غزل
اہتمام رنگ و بو سے گلستاں پیدا کریں
عروج زیدی بدایونی