EN हिंदी
احساسات کی بستی میں جب ہر جانب اک سناٹا تھا | شیح شیری
ehsasat ki basti mein jab har jaanib ek sannaTa tha

غزل

احساسات کی بستی میں جب ہر جانب اک سناٹا تھا

بلبیر راٹھی

;

احساسات کی بستی میں جب ہر جانب اک سناٹا تھا
میں آوازوں کے جنگل میں تب جانے کیا ڈھونڈ رہا تھا

جن راہوں سے اپنے دل کا ہر قصہ منسوب رہا ہے
اب تو یہ بھی یاد نہیں ہے ان راہوں کا قصہ کیا تھا

آج اسی کے افسانوں کا محفل محفل چرچا ہوگا
کل چوراہے پر تنہا جو شخص بہت خاموش کھڑا تھا

یوں جیون رس کب دیتا ہے پھر سے اپنے زخم کریدو
تم نے آخر کیا سوچا تھا درد سے کیوں سنیاس لیا تھا

ایسی کوئی بات نہیں تھی ان راہوں سے لوٹ بھی آتے
لیکن ان راہوں پہ کسی نے کچھ دن اپنا ساتھ دیا تھا

اس نگری میں لگ بھگ سب نے ایک طرح سے چوٹیں کھائیں
لیکن زخموں کو سہلانے کا سب کا اندازہ جدا تھا

تم ان بیگانی راہوں میں آخر کس کو ڈھونڈ رہے ہو
وہ تو کب کا لوٹ چکا ہے کل جو تمہارے ساتھ چلا تھا