اعتبار آرزو کا کر و فر جاتا رہا
دل سے عرفان محبت کا اثر جاتا رہا
شمع سوز غم کا قصہ رات بھر کہتی رہی
دے کے پروانہ پیام مختصر جاتا رہا
عہد رفتہ کو نہ دیکھا لوٹ کر آتے ہوئے
اعتبار گردش شام و سحر جاتا رہا
ہو سکے گا پھر نہ صیقل جوہر کردار زیست
گر جہاں سے اعتبار خیر و شر جاتا رہا
اعتبار آرزوئے مختصر باقی سہی
اعتبار جذبۂ فکر و نظر جاتا رہا
مشکلات عشق کا عقدہ نہ پھر بھی وا ہوا
نامہ بر آتا رہا اور نامہ بر جاتا رہا
فکر بیش و کم کے فارغؔ مرحلے طے ہو گئے
دل سے احساس غم نفع و ضرر جاتا رہا

غزل
اعتبار آرزو کا کر و فر جاتا رہا
لکشمی نارائن فارغ