EN हिंदी
دوسرا کنارا بھی بے وفا کنارا ہے | شیح شیری
dusra kinara bhi be-wafa kinara hai

غزل

دوسرا کنارا بھی بے وفا کنارا ہے

اسحاق وردگ

;

دوسرا کنارا بھی بے وفا کنارا ہے
اب تو ڈوب جانا ہی آخری سہارا ہے

میں اتر نہیں سکتا دوسرے کنارے پر
دوسرا کنارا تو دوسرا کنارا ہے

مجھ پہ اب محبت میں زہر پینا واجب ہے
میں نے دل نہیں ہارا حوصلہ بھی ہارا ہے

آسماں کی وسعت میں جانے اب کہاں ہوگا
وہ جو میری قسمت کا بے خبر ستارا ہے

وقت کی عدالت کا فیصلہ یہی ہے اب
میں بھی اک خسارا ہوں تو بھی اک خسارا ہے

دوسرے کنارے پر یہ خبر ہوئی مجھ کو
وہ تو اس کہانی میں تیسرا کنارا ہے

میں نے تیرے حصے کے رت جگے بھی کاٹے ہیں
میں نے تیرے حصے کا قرض بھی اتارا ہے