EN हिंदी
دوریوں میں قرابتوں کا مزا | شیح شیری
duriyon mein qarabaton ka maza

غزل

دوریوں میں قرابتوں کا مزا

محسن اسرار

;

دوریوں میں قرابتوں کا مزا
لیجے لیجے محبتوں کا مزا

کچھ مزا بارشوں کی شورش کا
کچھ ٹپکتی ہوئی چھتوں کا مزا

ہو گئی نا تباہ خود داری
لے لیا نا رعایتوں کا مزا

اک مہاجر ہی جان سکتا ہے
کیسا ہوتا ہے ہجرتوں کا مزا

دھوپ جائے قرار سایوں کی
ہر بگولہ مسافتوں کا مزا

بھوک اور پیاس ذات کی لذت
فاقہ مستی قناعتوں کا مزا

جیسے سجدے میں قتل ہو کوئی
ایسا ہوتا ہے چاہتوں کا مزا

موت ہے زندگی کی کمزوری
جاں کنی اپنی قوتوں کا مزا

عشق ہوتا ہے تب ہی جب محسنؔ
منتقل ہو طبیعتوں کا مزا