دور تھا ساحل بہت دریا بھی طغیانی میں تھا
اک شکستہ ناؤ سا میں تیز رو پانی میں تھا
مجھ سے ملنے کوئی آتا بھی تو ملتا کس طرح
میں تو گھر میں بند خود اپنی نگہبانی میں تھا
آدمیت کے عوض اس نے خریدا ہے لباس
آدمی تھا آدمی جب عہد عریانی میں تھا
ہے کلب کے رنگ و رامش میں بھی میرے ساتھ ساتھ
ایک سناٹا جو دل کی خانہ ویرانی میں تھا
تھا وہ میرے خیر مقدم کو بظاہر پیش پیش
عکس دیگر لیکن اس کی خندہ پیشانی میں تھا
مقتل شام و سحر میں کیا پنپتی زندگی
شبنمستاں ہونکتے شعلوں کی نگرانی میں تھا
موسم گل بھی جنوں پرور تھا لیکن بیشتر
مصلحت کا ہاتھ میری چاک دامانی میں تھا
صابرؔ اس منظر کی مووی لے رہا تھا ایک شخص
شاخ پر اک آشیاں شعلوں کی تابانی میں تھا
غزل
دور تھا ساحل بہت دریا بھی طغیانی میں تھا
نوبہار صابر