EN हिंदी
دور تک پھیلی ہوئی ہے تیرگی باتیں کرو | شیح شیری
dur tak phaili hui hai tirgi baaten karo

غزل

دور تک پھیلی ہوئی ہے تیرگی باتیں کرو

شمیم روش

;

دور تک پھیلی ہوئی ہے تیرگی باتیں کرو
ڈس نہ لے ہم کو کہیں یہ خامشی باتیں کرو

آؤ پلکوں سے چنیں بکھرے ہوئے لمحات کو
نیند آ جائے نہ جب تک خواب کی باتیں کرو

بس یہی لمحے غنیمت ہیں کہ ہم تم ساتھ ہیں
کون جانے مل بھی پائیں پھر کبھی باتیں کرو

صرف اک کرب مسلسل ہی نہیں ہے زندگی
مختصر وقفے کی صورت ہے خوشی باتیں کرو

روح کے ناسور تو رستے رہیں گے عمر بھر
درد میں آ جائے شاید کچھ کمی باتیں کرو

کون جانے کل کا سورج دیکھ بھی پائیں گے ہم
جب تلک ہے رات باقی بس یونہی باتیں کرو

اس قدر خاموش رہنا بھی نہیں اچھا روشؔ
چھا نہ جائے ذہن پر افسردگی باتیں کرو