دور تک پھیلا ہوا پانی ہی پانی ہر طرف
اب کے بادل نے بہت کی مہربانی ہر طرف
حادثے ہر موڑ پر ہیں گھات میں کیا کیجیے
کس قدر ارزاں ہے مرگ ناگہانی ہر طرف
جا چھپے اندھی گپھا میں جو قد آور لوگ تھے
اور بونوں کی ہوئی ہے حکمرانی ہر طرف
آگ کے چپو ہوا کے بادباں مٹی کی ناؤ
اور تا حد نظر پانی ہی پانی ہر طرف
بے بسی پر اپنی خود الفاظ حیراں ہیں شبابؔ
استعاروں نے بدل ڈالے معانی ہر طرف

غزل
دور تک پھیلا ہوا پانی ہی پانی ہر طرف
شباب للت