دور تک پرچھائیاں سی ہیں رہ افکار پر
رینگتی پھرتی ہے چپ دل کے در و دیوار پر
تو کہ ہے بیٹھا خس اوہام کے انبار پر
اس طرح مت ہنس مرے شعلہ بکف اشعار پر
اے نظام وحشت افزا تیرے سناٹوں کی خیر
اک کرن ہنسنے لگی ہے رات کی تلوار پر
کرچنیں دل کی گھنی پلکوں پہ ہیں بکھری ہوئی
آئنہ ٹوٹا پڑا ہے سایۂ اسرار پر
شعر کہنے کی غرض سے میں نے اکثر رات بھر
پھول سے احساس کو رکھا ہے نوک خار پر
کیا یہی منزل تھی دل کی کیا اسی کے واسطے
گامزن برسوں رہا غم کی رہ دشوار پر
خوں کی بو آتی ہے پیہم صورت حالات سے
آنکھ روتی ہے لہو ہر سرخیٔ اخبار پر
کس حماقت کے عوض کس جرم کی پاداش میں
وقت نے کھینچا ہے مجھ کو زندگی کی دار پر
ایک مدت سے دل و جاں نے لگا رکھے ہیں کان
ان سنی سرگوشیوں کی رس بھری جھنکار پر
غزل
دور تک پرچھائیاں سی ہیں رہ افکار پر
تخت سنگھ