EN हिंदी
دور تک اک سراب دیکھا ہے | شیح شیری
dur tak ek sarab dekha hai

غزل

دور تک اک سراب دیکھا ہے

ذوالفقار نقوی

;

دور تک اک سراب دیکھا ہے
وحشتوں کا شباب دیکھا ہے

ضوفشاں کیوں ہیں دشت کے ذرے
کیا کوئی ماہتاب دیکھا ہے

بام و در پر ہے شعلگی رقصاں
حسن کو بے نقاب دیکھا ہے

نامہ بر ان سے بس یہی کہنا
نیم جاں اک گلاب دیکھا ہے

اب زمیں پر قدم نہیں ٹکتے
آسماں پر عقاب دیکھا ہے

میری نظروں میں بانکپن کیسا
جاگتا ہوں کہ خواب دیکھا ہے