دور تک بس اک دھندلکا گرد تنہائی کا تھا
راستوں کو رنج میری آبلہ پائی کا تھا
فصل گل رخصت ہوئی تو وحشتیں بھی مٹ گئیں
ہٹ گیا سایہ جو اک آسیب صحرائی کا تھا
توڑ ہی ڈالا سمندر نے طلسم خود سری
زعم کیا کیا ساحلوں کو اپنی پہنائی کا تھا
اور مبہم ہو گیا پیہم ملاقاتوں کے ساتھ
وہ جو اک موہوم سا رشتہ شناسائی کا تھا
خاک بن کر پتیاں موج ہوا سے جا ملیں
دیر سے اکبرؔ گلوں پر قرض پروائی کا تھا
غزل
دور تک بس اک دھندلکا گرد تنہائی کا تھا
اکبر حیدرآبادی