EN हिंदी
دور سے دیکھ رہے تھے مرے احباب مجھے | شیح شیری
dur se dekh rahe the mere ahbab mujhe

غزل

دور سے دیکھ رہے تھے مرے احباب مجھے

سلطان رشک

;

دور سے دیکھ رہے تھے مرے احباب مجھے
اپنے ہم راہ بہا لے گیا سیلاب مجھے

وہ ترے قرب کی خوشبو کو عیاں ہو نہ نہاں
وہ حقیقت بھی نظر آتی ہے اک خواب مجھے

میں کہ ساحل کا تمنائی تھا لیکن اب تو
اپنے آغوش میں لیتا نہیں گرداب مجھے

میں تو صدیوں کا ننداسا ہوں مگر یہ تو بتاؤ
کیوں یہ ماحول نظر آتا ہے بے خواب مجھے

استعارہ ہوں نئے عہد میں گم شدگی کا
بھولتے جاتے ہیں ماضی کے حسیں خواب مجھے

سر ہستی تو اسی چشم گریزاں سے ملا
کیا ملا رشکؔ سر منبر و محراب مجھے