دور سے دیکھ رہے تھے مرے احباب مجھے
اپنے ہم راہ بہا لے گیا سیلاب مجھے
وہ ترے قرب کی خوشبو کو عیاں ہو نہ نہاں
وہ حقیقت بھی نظر آتی ہے اک خواب مجھے
میں کہ ساحل کا تمنائی تھا لیکن اب تو
اپنے آغوش میں لیتا نہیں گرداب مجھے
میں تو صدیوں کا ننداسا ہوں مگر یہ تو بتاؤ
کیوں یہ ماحول نظر آتا ہے بے خواب مجھے
استعارہ ہوں نئے عہد میں گم شدگی کا
بھولتے جاتے ہیں ماضی کے حسیں خواب مجھے
سر ہستی تو اسی چشم گریزاں سے ملا
کیا ملا رشکؔ سر منبر و محراب مجھے

غزل
دور سے دیکھ رہے تھے مرے احباب مجھے
سلطان رشک