EN हिंदी
دور سے آنکھیں دکھاتی ہے نئی دنیا مجھے | شیح شیری
dur se aankhen dikhati hai nai duniya mujhe

غزل

دور سے آنکھیں دکھاتی ہے نئی دنیا مجھے

حفیظ جالندھری

;

دور سے آنکھیں دکھاتی ہے نئی دنیا مجھے
گلشن ہستی نظر آتا ہے اک صحرا مجھے

عقل کی وادی میں ہوں گم کردۂ مقصود عشق
ڈھونڈھتا ہوں اور نہیں ملتا کوئی رستا مجھے

یہ بھی اک دھوکا تھا نیرنگ طلسم عقل کا
اپنی ہستی پر بھی ہستی کا ہوا دھوکا مجھے

شوق میرا طالب دیدار ہو جاتا اگر
دیکھتا موسیٰؔ مجھے سینا مجھے جلوا مجھے

شاعری کیا کفش بردار گرامی ہوں حفیظؔ
بے کمالی کے سوا کوئی نہیں دعویٰ مجھے