دور صحرا میں جہاں دھوپ شجر رکھتی ہے
آنکھ کیا شے ہے کہاں جا کے نظر رکھتی ہے
اور کچھ روز ابھی صور نہ پھونکا جائے
اس کے دربار میں دنیا ابھی سر رکھتی ہے
لوگ منزل پہ بہت خوش ہیں مگر منزل بھی
لمحہ لمحہ پس امکان سفر رکھتی ہے
آؤ اس شخص کی روداد سنیں غور کریں
سرخ روئی بھی جسے خاک بسر رکھتی ہے
یہ ذہانت جو وراثت کی عطا ہے شاہدؔ
کوئی دیوار اٹھاتی ہے تو در رکھتی ہے
غزل
دور صحرا میں جہاں دھوپ شجر رکھتی ہے
شاہد لطیف