EN हिंदी
دور کے جلووں کی شادابی کا دل دادہ نہ ہو | شیح شیری
dur ke jalwon ki shadabi ka dil-dada na ho

غزل

دور کے جلووں کی شادابی کا دل دادہ نہ ہو

نوبہار صابر

;

دور کے جلووں کی شادابی کا دل دادہ نہ ہو
تو جسے دریا سمجھتا ہے کہیں صحرا نہ ہو

آئنہ کو ایک مدت ہو گئی دیکھے ہوئے
وہ جبین شوق جس پر سوچ کا سایہ نہ ہو

وہ بھی میرے پاس سے گزرا اسی انداز سے
میں نے بھی ظاہر کیا جیسے اسے دیکھا نہ ہو

اس طرف کیا طرفہ عالم ہے یہ کھل سکتا نہیں
آدمی کا قد اگر دیوار سے اونچا نہ ہو

مصلحت چاہے رہوں ڈالے تصنع کا نقاب
دوستی کی مانگ چہرے پر کوئی پردہ نہ ہو

دھوپ سے گھبرا کے بیٹھا تو ہے لیکن دیکھ لے
یہ کسی گرتی ہوئی دیوار کا سایہ نہ ہو

قہقہوں کی چھاؤں میں اک شخص بیٹھا ہے اداس
وہ بھی میری ہی طرح اس بھیڑ میں تنہا نہ ہو

صابرؔ ان مانوس گلیوں سے تو دل اکتا گیا
آ چلیں اس شہر میں پہلے جیسے دیکھا نہ ہو