EN हिंदी
دور دور تک سناٹا ہے کوئی نہیں ہے پاس | شیح شیری
dur dur tak sannaTa hai koi nahin hai pas

غزل

دور دور تک سناٹا ہے کوئی نہیں ہے پاس

افتخار قیصر

;

دور دور تک سناٹا ہے کوئی نہیں ہے پاس
آ جا دریا ہونٹ سے لگ جا پی لے میری پیاس

عشق کے پہلے پہلے وار سے وہ بھی ٹوٹ گئی
اک جوگی کا پیار نہ آیا اس لڑکی کو راس

روزانہ پوشاکیں بدلوں اور خوشبوئیں بھی
میرے جسم سے اترے نا میری مٹی کی باس

سارے دریا پھوٹ پڑیں گے اک دوجے کے بیچ
اک دن آ کر مل جائے گی تیری میری پیاس

دل کے اندر ناچ رہے ہیں کتنے شاہ حسین
میرے عشق کی پھوٹی ہے اب روشن لال کپاس