EN हिंदी
دور بیٹھے ہیں کیوں پاس تو آئیے | شیح شیری
dur baiThe hain kyun pas to aaiye

غزل

دور بیٹھے ہیں کیوں پاس تو آئیے

محمد اظہر شمس

;

دور بیٹھے ہیں کیوں پاس تو آئیے
وقت رکتا نہیں یوں نہ شرمائیے

زینۂ عشق بھی زینت بیت بھی
دل میں رکھیے قدم دل میں بس جائیے

چار سو ہے گھٹا ہے قیامت بپا
زلف بہر کرم یوں نہ بکھرائیے

چاند تو ہے حسیں آپ سا تو نہیں
بات سچ ہے یہی مان بھی جائیے

میں ہوں بسمل نظر آپ کو ہے خبر
مر نہ جاؤں کہیں اب نہ تڑپائیے

آپ ہی کا تو نقش قدم چاند ہے
چاندنی بن کے آنگن میں چھا جائیے