دودھ جیسا جھاگ لہریں ریت اور یہ سیپیاں
جن کو چنتی پھر رہی ہیں موتیوں سی لڑکیاں
باغ میں بچوں کے گرد و پیش یوں اڑتی پھریں
جیسے قاتل اپنا اپنا ڈھونڈھتی ہوں تتلیاں
وہ مجھے خوشیاں نہ دے اور میری آنکھیں نم نہ ہوں
ہے یہ پیماں زندگی کے اور میرے درمیاں
بام و در ان کے ہوا کس پیار سے چھوتی رہی
چاندنی کی گود میں جب سو رہی تھیں بستیاں
کل یہی بچے سمندر کو مقابل پائیں گے
آج تیراتے ہیں جو کاغذ کی ننھی کشتیاں
گھومنا پہروں گھنے مہکے ہوئے بن میں کمالؔ
واپسی میں دیکھنا اپنے ہی قدموں کے نشاں
غزل
دودھ جیسا جھاگ لہریں ریت اور یہ سیپیاں
حسن اکبر کمال