ڈوبتے جاتے تھے تارے بادباں روشن ہوا
پو پھٹی خورشید ابھرا آسماں روشن ہوا
رات کہتی تھی دیوں کی ٹمٹماہٹ کب تلک
تیرگی سوئی ضمیر کن فکاں روشن ہوا
بے کسی کے درد نے لو دی جل اٹھا اک چراغ
رفتہ رفتہ اس سے پھر سارا جہاں روشن ہوا
جب سہارا آخری ٹوٹا تو ہمت جاگ اٹھی
بجھ گئے شمس و قمر اپنا مکاں روشن ہوا
بیسیوں جھوٹے خدا تھے ایک ہارون الرشید
آندھیاں اٹھیں چراغ پاسباں روشن ہوا
راکھ میں اب تک سلگتی ہیں دبی چنگاریاں
باغ سارا جل بجھا لیکن کہاں روشن ہوا
چڑھ رہی تھی فتنۂ امروز کی دیبی پہ بھینٹ
شاہد فردا کا چہرہ ناگہاں روشن ہوا
غزل
ڈوبتے جاتے تھے تارے بادباں روشن ہوا
سعید الظفر چغتائی