ڈوبتا ہوں جو ہٹاتا ہوں نظر پانی سے
اور تکتا ہوں تو چکراتا ہے سر پانی سے
چاند بھی اب نکل آیا افق آب کے پار
میرے غرقاب بدن تو بھی ابھر پانی سے
نامہ بر کوئی نہیں ہے تو کسی لہر کے ہاتھ
بھیج ساحل کی طرف اپنی خبر پانی سے
یہ بھی کیا کم ہے کہ ٹیلے تو ہوئے کچھ ہموار
بنتی جاتی ہے نئی راہ گزر پانی سے
نہیں معلوم کہ بہہ جاؤں میں کب خس کی طرح
یوں تو محفوظ ابھی تک ہوں ظفرؔ پانی سے
غزل
ڈوبتا ہوں جو ہٹاتا ہوں نظر پانی سے
صابر ظفر