ڈوبنے والو ہواؤں کا ہنر کیسا لگا
یہ کنارا یہ سمندر یہ بھنور کیسا لگا
پونچھتے جائیے دامن سے لہو ماتھے کا
سوچتے جائیے دیوار کو سر کیسا لگا
ہٹ گئی چھاؤں مگر لوگ وہیں بیٹھے ہیں
دشت کی دھوپ میں جانے وہ شجر کیسا لگا
در و دیوار ہیں میں ہوں مری تنہائی ہے
چاندنی رات سے پوچھو مرا گھر کیسا لگا
اس سے پہلے کبھی پونچھے تھے کسی نے آنسو
ان کا دامن تجھے اے دیدۂ تر کیسا لگا
سہل تھیں مرحلۂ ترک وفا تک راہیں
اس سے آگے کوئی پوچھے کہ سفر کیسا لگا
آنکھ سے دیکھ لیا ترک وطن کا منظر
گھر جہاں چھوڑ گئے تھے وہ کھنڈر کیسا لگا
وہ مجھے سن کے بڑی دیر سے چپ ہے قیصرؔ
جانے اس کو مری غزلوں کا ہنر کیسا لگا
غزل
ڈوبنے والو ہواؤں کا ہنر کیسا لگا
قیصر الجعفری