EN हिंदी
دشوار ہے اب راستا آسان سے آگے | شیح شیری
dushwar hai ab rasta aasan se aage

غزل

دشوار ہے اب راستا آسان سے آگے

اعجاز گل

;

دشوار ہے اب راستا آسان سے آگے
رکھ عمر کہن پچھلا قدم دھیان سے آگے

اٹکا ہوا سورج ہے اسی ایک سبق پر
بڑھتا نہیں دن رات کی گردان سے آگے

قسمت کی خرابی ہے کہ جاتا ہوں غلط سمت
پڑتا ہے بیابان بیابان سے آگے

پہنچا تو نہیں میں در وصلت پہ مگر ہاں
سنتا ہوں کہیں ہے شب ہجران سے آگے

نہ تخت نہ آباد کوئی شہر صبا کا
اک گریہ ہے دیوار سلیمان سے آگے

خمیازہ ہے اس عادت اسراف کا اور بس
جو بے سر و سامانی ہے سامان سے آگے

کل شور بپا دل میں تھا پہچان کی خاطر
اب سکتہ ہے آزار کا پہچان سے آگے

نکلی نہ کسی ایک کی تعبیر موافق
سو خواب تھے ہر خواب پریشان سے آگے