دشمنوں کو مرے ہم راز کرو گے شاید
وقت تنہائی میں آواز کرو گے شاید
تم بہت تیز ہو شہ زور ہو استاد بھی ہو
تم بنا پر کے بھی پرواز کرو گے شاید
یہ کھلا جسم کھلے بال یہ ہلکے ملبوس
تم نئی صبح کا آغاز کرو گے شاید
تلخ انداز سے بدلو گے زمانے کا مزاج
اپنے اطراف کو ناساز کرو گے شاید
تم تو خاموش ہو لو میں ہی ذرا بولتا ہوں
بات سے بات کا آغاز کرو گے شاید
غزل
دشمنوں کو مرے ہم راز کرو گے شاید
افروز عالم