EN हिंदी
دشمنی میں ہی سہی وہ یہ کرم کرتا رہا | شیح شیری
dushmani mein hi sahi wo ye karam karta raha

غزل

دشمنی میں ہی سہی وہ یہ کرم کرتا رہا

سبھاش پاٹھک ضیا

;

دشمنی میں ہی سہی وہ یہ کرم کرتا رہا
آئنہ مجھ کو دکھا کر عیب کم کرتا رہا

وہ تقاضائے محبت تھا تو میں نے اف نہ کی
پھر تو ظالم عمر بھر دل پہ ستم کرتا رہا

خیریت ہی پوچھنے آئے گا تو یہ سوچ کر
میرا دل بیمار خود کو اے صنم کرتا رہا

دشمنوں کی دشمنی بھی اس کے آگے کچھ نہیں
سازشیں جو ہر قدم پر ہم قدم کرتا رہا

لاڈلے نے خط کے بدلے پیسے بھجوائے مگر
باپ ملنے کی تمنا دم بہ دم کرتا رہا

جھوٹ تو کر کے دکھاوا بن گیا سچا وہاں
اور سچ کونے میں بیٹھا آنکھ نم کرتا رہا

لکھ نہ پایا اب تلک تو بات دل کی اے ضیاؔ
صرف ان کا ان کا افسانہ رقم کرتا رہا